Umron Ke Silsilay Romantic Novel By Maryam Ghaffar
Umron Ke Silsilay Romantic Novel By Maryam Ghaffar
کب تک آئے گی دلہن اقبال صاحب نکاح کا وقت ہوگیا ہے ،،،،، پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے نکاح کے لیے دلہن کا انتظار کرتے توفیق صاحب پریشانی سے گویا ہوئے تھے آخر کو یہ ان کی عزت کا سوال تھا کہ براتی اور اسیٹج پر بیٹھا دولہا نکاح کے لیے دلہن کے انتظار میں تھے اور دلہن کا کوئی آتہ پتہ ہی نہیں تھا تبھی لوگوں میں ہوتی چہ مگوئیاں سنتے توفیق صاحب اقبال صاحب کے سر پر آن پہنچے تھے جو خود اس وقت کافی پریشان تھے ۔
بب،،،بس،،، آتے ہونگے وہ ،،،، وہ کون اقبال صاحب میں دلہن کی بات کر رہا ہوں ،،،، پریشانی اور گبھراہٹ سے دل میں ہوتے درد پر وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے گویا ہوئے تھے جب اقبال صاحب ان کی بات بیچ میں کانٹتے کاٹ دار لہجے میں بولے تھے ۔
وہ ،،،، وہ ارتضیٰ گیا ہے بچی کو لینے پارلر سے وہ،،،،، واہہہہ اب آئی نا اصل وجہ سامنے ،،، لوگوں کی باتوں کا اثر تھا کہ اقبال صاحب کی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی جب ہی وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں توفیق صاحب کو بتانے لگے تھے جب اقبال صاحب کے منہ سے ارتضیٰ کا نام سنتے توفیق صاحب ایک دم بلند آواز میں چلائے تھے جس پر باتیں بنانے میں مصروف سب مہمان ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔
تو یوں کہیں نا کہ آپ کا بھتیجا اور بیٹی عین نکاح کے وقت بھاگ گئے ہیں ،،،، اقبال صاحب کے پریشان چہرے کو دیکھتے توفیق صاحب نے بد لحاظی سے کہتے اسٹیج پر دلہن کا انتظار کرتے ولید کو بھی حیران کر گئے تھے ۔
یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں توفیق صاحب آپ ،،،، توفیق صاحب کے بے مقصد باتیں سنتے اعجاز صاحب جو کافی دیر سے ارتضیٰ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اقبال صاحب کے پاس آتے بولے تھے ۔
بکواس میں کر رہا ہوں ،،، آپ کے بیٹے نے جو کیا وہ ہی تو بتا رہا ہوں جب بچوں پر آپ لوگوں کا زور ہی نہیں چلتا تو کیوں ہمیں بلایا برات لے کر جب آپ کے بیٹی کو بھاگنا ہی اپنے کزن کے ساتھ تھا تو پہلے بھاگ جاتی ہمارا وقت کیوں ضائع کیا ،،،، اعجاز صاحب کی کڑک آواز پر پل بھر کو توفیق صاحب چپ ہوئے تھے پر اپنی اور اپنے خاندان کی بےعزتی کا سوچتے توفیق صاحب بغیر سوچے سمجھے جو منہ میں آیا تھا بولنے لگے تھے جس پر اپنے بیٹے کو سب چیز کا زمے دار ٹھہراتے اعجاز صاحب کا شرمندگی سے سر جھکا تھا ۔
انکل ہم آپ کا لحاظ کر رہے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کچھ بھی کہیں گے اور ہم سنتے رہیں گے بہتر ہوگا آپ اپنی زبان کو لگام دیں ورنہ میں بھول جاؤں گا آپ مجھ سے بڑے ہیں ،،،،، اعجاز صاحب کو ماہی اور ارتضیٰ پر بے بنیاد الزام لگانے پر جب سے خاموش ازحان ان کے سامنے آتا خود پر ضبط کے بندھ باندھتا گویا تھا ۔